Sunday 18 August 2013

Mevlana Jalaluddin Rumi's biography

                    Mevlana Jalaluddin Rumi's biography



  Jalaluddin Rumi was born in 1207 C.E. ( i.e. Common Era aligned with A.D.) in Balkh. This city was then in the Persian province of Khorasan but is now in Afghanistan. Balkh was then a prominent city and his family had a tradition of service there in legal and religious offices. Despite this background he moved, in his youth and with his family about 1218 C.E., away from Balkh in order to avoid the warlike Mongols who were then conquering extensively under the leadership of their Khans.

  The family travelled to Baghdad, to Mecca on pilgrimage, and to Damascus and eventually settled

at Karaman near Konya in what is now western Turkey.

  Following this move to Konya, then the capital of the western Seljuk Turks Jalaluddin's father was busy as an Islamic theologian, teacher and preacher. Jalaluddin followed in this tradition and, upon his father's demise in 1231 C.E. succeeded to his post as a prominent religious teacher.

  This part of the world was then known to its inhabitants as Rum, a name derived from the Byzantine Roman Empire that had formerly held it. Jalaluddin's name in religion and literature - Rumi - is itself derived from Rum.

  Rumi is today thought of being a Persian mystic and poet and is closely identified with Sufism and Sufi mysticism. This Sufism being a mysticism within Islam where devotees sought a mystical union with God.

  From around 1232 C.E. and the arrival of one of his fathers former Balkh students in Konya Rumi was thoroughly familiarised with doctrines of Sufism that had emerged in Persia and in 1240 C.E. he was recognised as being a Shaykh in his own right.

  In about 1244 C.E. Rumi befriended Shams ad-Din (Sun of Religion), a wandering dervish or Sufi devotee who was formerly from Tabrìz, who became his mentor. For over two years he and Shams ad-Din were very closely associated in a platonic friendship and living in the same house. Sufis had a tradition of such close platonic friendships based on a commonality of spiritual endeavours.

  Rumi had previous to this all absorbing friendship been busy as a teacher and leader of a Mevlevi discipleship. His former pupils were most discomfited by the friendship with Shams and threatened violence.

  Shams ad-Din disappeared unexplainedly in 1247 C.E. and Rumi subsequently composed approaching to 30,000 verses of poetry, the Lyrics of Shams of Tabrìz, expressing his feelings at the disappearance of his friend. He later formed other deep spiritual friendships that were not really welcomed by his disciples in the Mevlevi Order.

  One of these friendships again inspired poetry, notably the epic poem Masnavi I Ma'navi (Spiritual Couplets), which has had an immense influence on Islamic literature and thought.

  This friend, Husam ad-Din Chelebi, became leader of the Mevlevi Order upon Rumi's death in 1273 C.E.


   Rumi had taught that "Muslims, Christians, Jews, and Zoroastrians should be viewed with the same eye" and it is said that people drawn from five faith backgrounds followed his funeral bier. His mausoleum, the Green Dome in Konya, is today a place of pilgrimage for many thousands.

مولانا جلال ‌الدین محمد بلخی رومی


پیدائش اور نام و نسب
محمد جلال الدین رومی (پیدائش:1207ء، انتقال: 1273ء) مشہور فارسی شاعر تھے۔ اصل نام جلال الدین تھا لیکن مولانا رومی کے نام سے مشہور ہوئے۔ جواہر مضئیہ میں سلسلہ نسب اس طرح بیان کیا ہے : محمد بن محمد بن محمد بن حسین بن احمد بن قاسم بن مسیب بن عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکرن الصدیق۔ اس روایت سے حسین بلخی مولانا کے پردادا ہوتے ہیں لیکن سپہ سالار نے انہیں دادا لکھا ہے اور یہی روایت صحیح ہے۔ کیونکہ وہ سلجوقی سلطان کے کہنے پر اناطولیہ چلے گئے تھے جو اس زمانے میں روم کہلاتا تھا۔ ان کے والد بہاؤ الدین بڑے صاحب علم و فضل بزرگ تھے۔ ان کا وطن بلخ تھا اور یہیں مولانا رومی 1207ء بمطابق 604ھ میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم
ابتدائی تعلیم کے مراحل شیخ بہاؤ الدین نے طے کرادیے اور پھر اپنے مرید سید برہان الدین کو جو اپنے زمانے کے فاضل علماء میں شمار کیے جاتے تھے مولاناکا معلم اور اتالیق بنادیا۔ اکثر علوم مولانا کو انہی سے حاصل ہوئے۔ اپنے والد کی حیات تک ان ہی کی خدمت میں رہے۔ والد کے انتقال کے بعد 639ھ میں شام کا قصد کیا ۔ ابتدا میں حلب کے مدرسہ حلاویہ میں رہ کر مولاناکمال الدین سے شرف تلمذ حاصل کیا۔
علم و فضل
مولانا رومی اپنے دور کے اکابر علماء میں سے تھے۔ فقہ اور مذاہب کے بہت بڑے عالم تھے۔ لیکن آپ کی شہرت بطور ایک صوفی شاعر کے ہوئی۔ دیگرعلوم میں بھی آپ کو پوری دستگاہ حاصل تھی۔ دوران طالب علمی میں ہی پیچیدہ مسائل میں علمائے وقت مولانا کی طرف رجوع کرتے تھے۔ شمس تبریز مولانا کے پیر و مرشد تھے۔ مولانا کی شہرت سن کر سلجوقی سلطان نے انھیں اپنے پاس بلوایا۔ مولانا نے درخواست قبول کی اور قونیہ چلے گئے اور
 اولاد
ترجمہ:”جس شخص کی جان میں نورہوگا اس مثنوی کا بقیہ حصہ اس کے دل میں خودبخود اتر جائیگا”
اقبال اور رومی
علامہ محمد اقبال مولانا رومی کو اپنا روحانی پیر مانتے تھے۔ کشف اور وجدان کے ذریعے ادراک حقیقت کے بعد صوفی صحیح معنوں میں عاشق ہو جاتا ہے کہ بہ رغبت تمام محبوب حقیقی کے تمام احکام کی پیروی کرتا ہے۔ رومی نے جوہر عشق کی تعریف اور اس کی ماہیت کی طرف معنی خیز اشارے کیے ہیں ۔ صوفی کی ذہنی تکمیل کا مقام کیا ہے اس کے متعلق دو شعر نہایت دل نشیں ہیں۔
علامہ اقبال نے اس کی یوں تشریح کی ہے


مولانا کے دو فرزند تھے ، علاؤ الدین محمد ، سلطان ولد ۔ علاؤ الدین محمد کا نام صرف اس کارنامے سے زندہ ہے کہ انہوں نے شمس تبریز کو شہید کیا تھا۔ سلطان ولد جو فرزند اکبر تھے ، خلف الرشید تھے ، گو مولانا کی شہرت کے آگے ان کا نام روشن نہ ہوسکا لیکن علوم ظاہری و باطنی میں وہ یگانہ روزگار تھے۔ ان کی تصنیفات میں سے خاص قابل ذکر ایک مثنوی ہے ، جس میں مولانا کے حالات اور واردات لکھے ہیں اور اس لحاظ سے وہ گویا مولانا کی مختصر سوانح عمری ہے۔

سلسلہ باطنی
مولانا کا سلسلہ اب تک قائم ہے۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفرنامے میں لکھا ہے کہ ان کے فرقے کے لوگ جلالیہ کہلاتے ہیں۔ چونکہ مولانا کا لقب جلال الدین تھا اس لیے ان کے انتساب کی وجہ سے یہ نام مشہور ہوا ہوگا ۔ لیکن آج کل ایشیائے کوچک ، شام ، مصر اور قسطنطنیہ میں اس فرقے کو لوگ مولویہ کہتے ہیں۔ یہ لوگ نمد کی ٹوپی پہنتے ہیں جس میں جوڑ یا درز نہیں ہوتی ، مشائخ اس ٹوپی پر عمامہ باندھتے ہیں۔ خرقہ یا کرتہ کی بجائے ایک چنٹ دار پاجامہ ہوتاہے۔ ذکر و شغل کا یہ طریقہ ہے کہ حلقہ باندھ کر بیٹھتے ہیں۔ ایک شخص کھڑا ہو کر ایک ہاتھ سینے پر اور ایک ہاتھ پھیلائے ہوئے رقص شروع کرتا ہے۔ رقص میں آگے پیچھے بڑھنا یا ہٹنا نہیں ہوتا بلکہ ایک جگہ جم کر متصل چکر لگاتے ہیں۔ سماع کے وقت دف اور نے بھی بجاتے ہیں۔

وفات
بقیہ زندگی وہیں گذار کر 1273ء بمطابق 672ھ میں انتقال کرگئے۔ قونیہ میں ان کا مزار آج بھی عقیدت مندوں کا مرکز ہے۔
قونیہ میں مولانا کا مزار
مثنوی رومی
ان کی سب سے مشہور تصنیف ’’مثنوی مولانا روم‘‘ ہے۔ اس کے علاوہ ان کی ایک مشہور کتاب ’’فیہ مافیہ‘‘ بھی ہے۔

باقی ایں گفتہ آیدبے زباں
درددل ہر کس کہ دارد نورجان

آدمی دید است باقی پوست است
دید آں باشد کہ دید دوست است
جملہ تن را در گداز اندر بصر
در نظر رو در نظر رو در نظر

خرد کے پاس خبر کے سوا کچھ اور نہیں
ترا علاج نظر کے سوا کچھ اور نہیں

ان کے 800 ویں جشن پیدائش پر ترکی کی درخواست پر اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تعلیم، ثقافت و سائنس یونیسکو نے 2007ء کو بین الاقوامی سالِ رومی قرار دیا۔ اس موقع پر یونیسکو تمغہ بھی جاری کرے گا۔
یہ معلومات وکیپیڈیا سے لی گئی ہے

No comments :

Post a Comment